ہومیوپیتھک طریقہ علاج
ہومیوپیتھک طریقہ علاج
اللہ تعالی نے انسانی جسم کے اندر ایک غائبی طاقت رکھی ہے جسکو قوت حیات کہا جاتا ہے۔
قوت حیات کے کمزور ہو جانے سے ہی مرض بڑھتا ہے۔ مرض کو ختم کرنے کے لیے قوت حیات کو طاقتور بنانا ہوگا۔ جس کےلئے دوائی کی ضرورت ہوگی تاکہ قوت حیات کو بیدار کیا جاسکے۔ ہر دوائی کے اپنے الگ الگ خواص ہوتے ہیں جس کا تندرست انسانی جسم پر تجربہ کیا جاتا ہے۔جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
قوت حیات کے کمزور ہو جانے سے ہی مرض بڑھتا ہے۔ مرض کو ختم کرنے کے لیے قوت حیات کو طاقتور بنانا ہوگا۔ جس کےلئے دوائی کی ضرورت ہوگی تاکہ قوت حیات کو بیدار کیا جاسکے۔ ہر دوائی کے اپنے الگ الگ خواص ہوتے ہیں جس کا تندرست انسانی جسم پر تجربہ کیا جاتا ہے۔جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
مریض کو ایسی دوائی دیئے گئے جس کی علامات مرض کی علامات سے ملتی جلتی ہو۔ مرض کو اپنے جیسی علامات والی دوائی مل جانے سے اسکی طاقت دوگنا یعنی ڈبل ہو جاتی ہے۔ مرض پہلے سے زیادہ طاقتور اور بلند ہوکر سر اونچا کرتا ہے۔
مرض کو ترقی کرتا دیکھ کر قوت حیات کا ضمیر بیدار ہوتا ہے۔ قوت حیات اٹھ کھڑی ہوتی ہے مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ اس مقابلے کے دوران چورساتھی (نقلی مرض) سب سے پہلے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اصلی مرض دوبارہ کمزور ہو جاتا ہے۔اب چونکہ قوت حیات طاقتور ہے اور مرض کمزور ہے۔ قوت حیات مرض سے جیت جاتی ہے اور مرض کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
پس
ہر دوائی میں نقلی مرض پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ نقلی مرض جسم کے اندر جاکر اصلی مرض کےساتھ مل جاتا ہے اور دونوں مل کر طاقتور ہو جاتے ہیں اور جسم میں خرابی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
چونکہ مرض پہلے اکیلا اور کمزور تھا اسلئے قوت حیات کو کوئی تکلیف یا دقت محسوس نہ ہوئی۔
اب اصلی اور نقلی مرض ملکر طاقتور ہوگئے ہیں اور طاقت و تیزی کے ساتھ جسم میں طوفان برپا کر دیا۔
قوت حیات کو اسکے ضمیر نے بیدار کیا اور جوش پیدا کیا کہ میری شرافت اور کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مجھے ہی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح قوت حیات نے اپنے بچاؤ کیلئے اٹھ کر کمر باندھی اور پوری طاقت کے ساتھ نقلی اور اصلی مرض کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اور مرض سے جان چھڑا لی۔
مرض تو چلا گیا مگر جاتے جاتے جسم کے اعضاء کو بہت سارا نقصان پہنچا گیا۔ قوت حیات نے اس کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرنا شروع کیا جس کے بعد جسم میں ازسرے نو بہار ، تازگی اور خوشحالی آجاتی ہے۔
مرض کو ترقی کرتا دیکھ کر قوت حیات کا ضمیر بیدار ہوتا ہے۔ قوت حیات اٹھ کھڑی ہوتی ہے مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ اس مقابلے کے دوران چورساتھی (نقلی مرض) سب سے پہلے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اصلی مرض دوبارہ کمزور ہو جاتا ہے۔اب چونکہ قوت حیات طاقتور ہے اور مرض کمزور ہے۔ قوت حیات مرض سے جیت جاتی ہے اور مرض کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
پس
ہر دوائی میں نقلی مرض پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ نقلی مرض جسم کے اندر جاکر اصلی مرض کےساتھ مل جاتا ہے اور دونوں مل کر طاقتور ہو جاتے ہیں اور جسم میں خرابی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
چونکہ مرض پہلے اکیلا اور کمزور تھا اسلئے قوت حیات کو کوئی تکلیف یا دقت محسوس نہ ہوئی۔
اب اصلی اور نقلی مرض ملکر طاقتور ہوگئے ہیں اور طاقت و تیزی کے ساتھ جسم میں طوفان برپا کر دیا۔
قوت حیات کو اسکے ضمیر نے بیدار کیا اور جوش پیدا کیا کہ میری شرافت اور کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مجھے ہی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح قوت حیات نے اپنے بچاؤ کیلئے اٹھ کر کمر باندھی اور پوری طاقت کے ساتھ نقلی اور اصلی مرض کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اور مرض سے جان چھڑا لی۔
مرض تو چلا گیا مگر جاتے جاتے جسم کے اعضاء کو بہت سارا نقصان پہنچا گیا۔ قوت حیات نے اس کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرنا شروع کیا جس کے بعد جسم میں ازسرے نو بہار ، تازگی اور خوشحالی آجاتی ہے۔